Aug 22, 2010

Always pray for your parents

کچھ لمحے
 

وہ ان کی زندگی کا بھیانک دن تھا جب وہ بری طرح سے ٹوٹیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ان کی پوتی ان سے پوچھ رہی تھی کہ دادی آپ نے اتنا کچھ بنا کر رکھا ہے کھاتی کیوں نھیں؟؟؟؟؟؟؟ وہ کیا بتاتیں کہ انہوں نے کیا کھو دیا ۔۔۔۔ انہوں نے اپنی زندگی ۔۔۔۔۔۔اپنا بیٹا کھو دیا ہے۔

 

جلال کے والدین ہمیشہ اسے یہ کہتے رہے کہ آگے بڑھو اور سب کچھ حاصل کر لو۔۔۔۔۔۔ مگر کبھی کبھی بچے کسی بات کو غلط انداز میں لیں تو ایسا ہی ھوتا ھے جیسا جلال نے کیا۔ جلال نے بھی خوب محنت کر کے سب کچھ حاصل کر لیا مگر۔ پیچھے سب کچھ بھول گیا۔

 

گھر بظاہر تو بھرا ہوا تھا مگر ۔۔۔۔۔۔ مگر اندر دل سے خالی۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے بھی روز ابو کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے اور بیوی ۔۔ اس نے بھی کبھی کوئی شکایت نھی کی۔ جلال کی امی جلال کی شادی ہونے کے بعد بھی اس کے لیۓ خود کھانا بناتی تھیں۔ مگر جلال نے کبھی گھر میں کھانا نھی کھایا ھاں ڈٰھیر ضرورکر دیا تھا۔

 

ابھی دادی کچن کی الماریوں کو دیکھ رھی تھیں، مٹر، چاول، طرح طرح کی سبزیاں اور پکوان صرف انہوں نے اپنے لاڈلے کے لیۓ بناۓ تھے مگر اس کے پاس ٹائم نھی تھا۔ دنیا کے جھمیلوں میں وہ اپنوں کو بھول گیا تھا۔ سب دکھی اور حیران تھے کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔ ھاں ایسا تب ہوتا ہے جب والدین بچوں سے بہت سی امیدیں کر لیتے ھیں، اور آگے بڑھنے والا سبق بچوں کو کسی اور ہی دنیا کی سیر کرادیتا ہے۔

 

ایک دن اچانک دادی بھی چل بسیں، دل میں دکھوں کا بوجھ لے کر، کسی کو یقین نھیں آرھا تھا، ہاں عورت ایسی ہی ہوتی ہے، بچپن سے لے کر مرتے دم تک تک شکوہ نھی کرتی وہ ہمیشہ ہر زیادتی کو چپکے سے سہ جاتی ہے۔

 

دادی کی وفات کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا۔ بچے کھیل میں مصروف تھے۔ بھاگ دوڑ کر کےسارے گھر میں شور مچارہے تھے۔ ایک دن عجیب بات ہوئی، کھیل میں مصروف بچوں کو ایک انجانا سا احساس ہوا کہ انہوں نے اپنی دادی کودیکھا ہے، بچے سہم گۓ اور گھر میں خاموشی چھا گئ۔

 

اسی طرح ایک دن ثمینہ کو بھی کسی کے ہونے کا احساس ہوا، ان کو ایک پل کو لگا کہ ان کی ساس ان کے آس پاس ہی ھیں، انہوں نے جلال کو بتایا تو انہوں نے اس کو ان کا وہم قرار دے کر خاموش کرادیا۔

 

اب دن پھر سے نارمل ہوگۓ تھے ہاں دل کچھ خالی ہوگۓ تھے کیون کہ دعا کے لیۓ ہر وقت اٹھنے والے ہاتھ جو ان میں موجود نھی تھے۔اس بات کا اندازہ ان کے زندہ رہنے پہ نھی ہوتا۔جب وہ ہم سے جدا ہوتے ھیں تب ہم کو ہمارے ہاتھ خالی محسوس ہوتے ھیں۔

 

ایک دن چاۓ پیتے پینے کے دوران ایک عجیب بات ہوئی کہ جلال کو پہلی بار اپنی کاروباری زندگی میں کسی کے نہ ہونے کا ملال ہوا اور اس وقت وہ شدت سے اپنی ماں کو یاد کر رہے تھے اور سوچھ رہے تھے کہ میری ماں نے میرے لیۓ کتنی ہی راتیں جاگ کر میرا انتظار کیا ہے ،ان کو اپنا آپ بالکل اچھا نھی لگا۔اپنے آپ سے الجھن ہوئئ۔

 

ایک ایسی ہی طوفانی رات جب جلال آفس میں ہی تھے تو ان کو لگا کہ ان کے علاوہ بھی کوئئ ہے۔ انہوں نے آواز دی مگر کوئی جواب نہ آیا ، ایک ہیولہ ضرور نظر آیا جو ان کی ماں سے ملتا تھا۔

 

انہوں نے پکارا امی، ان کو آواز آئی کہ بیٹا تم نے کام میں مصروف ہو کر اپنی ماں کو ہی بھلا دیا تمہارے پاس اپنی ماں کی مغفرت کے لیۓ بھی زرا سا وقت نھیں ہے دو گھڑی نماز پڑھ کے اپنی ماں کی مغفرت کی دعا کر کے اس کی روح کو سکون پہنچا دیا کرو، میں نے آج تک تم سے کچھ نھیں مانگا مگر میری بے چین روح تم سے کچھ مانگنے پہ مجبور کر رہی ہے، وہ کچھ دعائیں ھیں جو تم مجھے دے سکتے ہو۔

 

جلال اب زارو قطار رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ماں میں نے آپ کو زندگی میں بہت مایوس کیا تھا مگر اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو مایوس نھی کرونگا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔

 

اس دن سے لےکر آج تک جلال ہر نماز میں اپنی ماں کے لیۓ دعا کرتے ھیں اور گھر پہ بھی توجہ دیتے ھیں، ثمینہ اور بچے ان کی اس تبدیلی سے بہت خوش ھیں۔



--
********************************************************************
SHAHZAD AFZAL MALIK See my web:
 "http://shahzadafzal.blogspot.com/"
********************************************************************

No comments:

Post a Comment

Your feedback is warmly welcomed:
Contac us at: info@pakistanprobe.com

Popular Posts