Jul 28, 2008

وہ تیری طرح کوئی تھی

~*~*~*~*~*~*~*~*~*~*~*~
یونہی دوش پہ سنبھالے
گھنی زلف کے دوشالے
وہی سانولی سی رنگت
وہی نین نیند والے


وہی من پسند قامت
وہی خوشنما سراپا
جو بدن میں نیم خوابی
تو لہو میں رتجگا سا


کسی اور ہی سفر میں
سرِ راہ مل گئی تھی
تجھے اور کیا بتاؤں
وہ تیری طرح کوئی تھی


مجھے دل سے اس نے پوجا
اسے جاں سے میں نے چاہا
اسی ہمر ہی میں آخر
کہیں آگیا دوراہا


پھر اک ایسی شام آئی
کہ وہ شام آخری تھی
کوئی زلزلہ سا آیا
کوئی برق سی گری تھی


عجب آندھیاں چلیں پھر
کہ بکھر گئے دل و جاں
کہ کہیں گلِ وفا تھا
نہ چراغ عہدوپیماں


وہ جہاز اتر گیا تھا
یہ جہاز اتر رہا ہے
تیری آنکھ میں ہیں آنسو
میرا دل بکھر رہا ہے


تو جہاں مجھے ملی ہے
وہ یہیں جدا ہوئی تھی
تجھے اور کیا بتاؤں
وہ تیری طرح کوئی تھی

احمد فراز
~*~*~*~*~*~*~*~*~*~*~*~

No comments:

Post a Comment

Your feedback is warmly welcomed:
Contac us at: info@pakistanprobe.com

Popular Posts